پہلے چادر کی ہوس میں پاؤں پھیلائے بہت
اب یہ دکھ ہے پاؤں کیوں چادر سے باہر آ گیا
سجاد باقر رضوی
پھر ذہن کی گلیوں میں صدا گونجی ہے کوئی
پھر سوچ رہے ہیں کہیں آواز سنی ہے
سجاد باقر رضوی
پھرتی تھی لے کے شورش دل کو بہ کو ہمیں
منزل ملی تو شورش دل کا پتا نہ تھا
سجاد باقر رضوی
سامان دل کو بے سر و سامانیاں ملیں
کچھ اور بھی جواب تھے میرے سوال کے
سجاد باقر رضوی
شہر کے آباد سناٹوں کی وحشت دیکھ کر
دل کو جانے کیا ہوا میں شام سے گھر آ گیا
سجاد باقر رضوی
ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر
وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے
سجاد باقر رضوی
زلفیں ادھر کھلیں ادھر آنسو امنڈ پڑے
ہیں سب کے اپنے اپنے روابط گھٹا کے ساتھ
سجاد باقر رضوی