آج سوچا ہے کہ خود رستے بنانا سیکھ لوں
اس طرح تو عمر ساری سوچتی رہ جاؤں گی
صائمہ اسما
ایسا کیا اندھیر مچا ہے میرے زخم نہیں بھرتے
لوگ تو پارہ پارہ ہو کر جڑ جاتے ہیں لمحے میں
صائمہ اسما
جانے پھر منہ میں زباں رکھنے کا مصرف کیا ہے
جو کہا چاہتے ہیں وہ تو نہیں کہہ سکتے
صائمہ اسما
کبھی کبھی تو اچھا خاصا چلتے چلتے
یوں لگتا ہے آگے رستہ کوئی نہیں ہے
صائمہ اسما
میسر خود نگہ داری کی آسائش نہیں رہتی
محبت میں تو پیش و پس کی گنجائش نہیں رہتی
صائمہ اسما
نہ جانے کیسی نگاہوں سے موت نے دیکھا
ہوئی ہے نیند سے بیدار زندگی کہ میں ہوں
صائمہ اسما
نقش جب زخم بنا زخم بھی ناسور ہوا
جا کے تب کوئی مسیحائی پہ مجبور ہوا
صائمہ اسما