اے کاش خود سکوت بھی مجھ سے ہو ہم کلام
میں خامشی زدہ ہوں صدا چاہیئے مجھے
صابر ظفر
عجب اک بے یقینی کی فضا ہے
یہاں ہونا نہ ہونا ایک سا ہے
صابر ظفر
اپنی یادیں اس سے واپس مانگ کر
میں نے اپنے آپ کو یکجا کیا
صابر ظفر
بدن نے چھوڑ دیا روح نے رہا نہ کیا
میں قید ہی میں رہا قید سے نکل کے بھی
صابر ظفر
بنا ہوا ہے مرا شہر قتل گاہ کوئی
پلٹ کے ماؤں کے لخت جگر نہیں آتے
صابر ظفر
بے وفا لوگوں میں رہنا تری قسمت ہی سہی
ان میں شامل میں ترا نام نہ ہونے دوں گا
صابر ظفر
دور تک ایک خلا ہے سو خلا کے اندر
صرف تنہائی کی صورت ہی نظر آئے گی
صابر ظفر
گزارتا ہوں جو شب عشق بے معاش کے ساتھ
تو صبح اشک مرے ناشتے پہ گرتے ہیں
صابر ظفر
ہم اتنا چاہتے تھے ایک دوسرے کو ظفرؔ
میں اس کی اور وہ میری مثال ہو کے رہا
صابر ظفر