EN हिंदी
پڑا نہ فرق کوئی پیرہن بدل کے بھی | شیح شیری
paDa na farq koi pairahan badal ke bhi

غزل

پڑا نہ فرق کوئی پیرہن بدل کے بھی

صابر ظفر

;

پڑا نہ فرق کوئی پیرہن بدل کے بھی
لہو لہو ہی رہا جم کے بھی پگھل کے بھی

بدن نے چھوڑ دیا روح نے رہا نہ کیا
میں قید ہی میں رہا قید سے نکل کے بھی

تہوں کا شور بھی اب سطح پر سنائی دے
وہ جوش میں ہے تو پھر جسم و جاں سے چھلکے بھی

نئی رتوں میں بھی صابرؔ اداسیاں نہ گئیں
خمیدہ سر ہے ہر اک شاخ پھول پھل کے بھی