چشمۂ ناب نہ بڑھ کر جنوں سیلاب بنے
بہہ نہ جائے کہ یہ مٹی کا مکاں ہے اب کے
رضی رضی الدین
چھلکا پڑا ہے چہروں سے اک وحشت جنوں
پھیلا پڑا ہے عشق کا بازار خیر ہو
رضی رضی الدین
دیوانۂ خرد ہو کہ مجنون عشق ہو
رہنا ہے اس کو چاک گریباں کئے ہوئے
رضی رضی الدین
دل کو جلائے رکھا ہے ہم نے چراغ سا
اس گھر میں ہم ہیں اور ترا انتظار ہے
رضی رضی الدین
دشمن جاں ہیں سبھی سارے کے سارے قاتل
تو بھی اس بھیڑ میں کچھ دیر ٹھہر جا اے دل
رضی رضی الدین
اس اندھیرے میں جلتے چاند چراغ
رکھتے کس کس کا وہ بھرم ہوں گے
رضی رضی الدین
جگہ بچی ہی نہیں دل پہ چوٹ کھانے کی
اٹھا لو کاش یہ عادت جو آزمانے کی
رضی رضی الدین
نشۂ یار کا نشہ مت پوچھ
ایسی مستی کہاں شرابوں میں
رضی رضی الدین
قلب و جگر کے داغ فروزاں کئے ہوئے
ہیں ہم بھی اہتمام بہاراں کئے ہوئے
رضی رضی الدین