اب بھی اسی طرح سے اسے انتظار ہے
اب بھی کسی خیال سے دل بے قرار ہے
آتی خزاں میں بکھرے ہیں مرجھائے چند پھول
اجڑا ہوا چمن ہے یہ جاتی بہار ہے
یوں دل پہ لے لیا ہے کہ تن کا نہ ہوش ہے
اور تن پہ جو قبا ہے تو وہ تار تار ہے
آہٹ ہو کوئی اس کی طرف دوڑے جاتے ہیں
تاخیر ایک پل کی بھی اب دل پہ بار ہے
دل کو جلائے رکھا ہے ہم نے چراغ سا
اس گھر میں ہم ہیں اور ترا انتظار ہے
غزل
اب بھی اسی طرح سے اسے انتظار ہے
رضی رضی الدین