EN हिंदी
دہکا پڑا ہے جامۂ گل یار خیر ہو | شیح شیری
dahka paDa hai jama-e-gul yar KHair ho

غزل

دہکا پڑا ہے جامۂ گل یار خیر ہو

رضی رضی الدین

;

دہکا پڑا ہے جامۂ گل یار خیر ہو
جلنے لگے ہیں دامن گلزار خیر ہو

چھلکا پڑا ہے چہروں سے اک وحشت جنوں
پھیلا پڑا ہے عشق کا بازار خیر ہو

کن حادثاتی دور سے دو چار ان دنوں
آ بیٹھے ہیں اب گھر میں ہی اغیار خیر ہو

''گرنے لگے ہیں سر در و دیوار خیر ہو''
لگتے نہیں ہیں اچھے کچھ اشعار خیر ہو

بکنے کو ہیں اب ہم نہیں تیار خیر ہو
اٹھنے کو ہیں اب کوچہ و بازار خیر ہو