قلب و جگر کے داغ فروزاں کئے ہوئے
ہیں ہم بھی اہتمام بہاراں کئے ہوئے
دیوانۂ خرد ہو کہ مجنون عشق ہو
رہنا ہے اس کو چاک گریباں کئے ہوئے
پردے میں شب کے ہم نے چھپائے ہیں دل کے زخم
اک تیرگی ہے درد کا درماں کئے ہوئے
دل کا عجیب حال ہے بے اختیار ہے
یادوں کی میزبانی کا ساماں کئے ہوئے
راز حیات کس کو بتائیں کہ ہر کوئی
ہے زندگی کو موت کا عنواں کئے ہوئے
بھٹکا رہا ہے دل کو کسی شخص کا خیال
دل کو اسی کی یاد پریشاں کئے ہوئے
کیا ہو رہا ہے دل پہ اثر ان کا کیا کہیں
جلوہ جو ہیں نگاہ کو حیراں کئے ہوئے
غزل
قلب و جگر کے داغ فروزاں کئے ہوئے
رضی رضی الدین