کوہ غم اتنا گراں اتنا گراں ہے اب کے
ہے کہاں تیشہ گراں آہ گراں ہے اب کے
میکشوں اتنا نہ پی جاؤ کہ غم ڈوب جائے
پھر نہ پھٹ جائے یہ آتش جو فشاں ہے اب کے
تنگ دامان یہ دنیائے ستم زور الم
بڑھتا جائے ہے رواں اور دواں ہے اب کے
چشمۂ ناب نہ بڑھ کر جنوں سیلاب بنے
بہہ نہ جائے کہ یہ مٹی کا مکاں ہے اب کے
ہر طرف پھیلتے بڑھتے ہوئے یہ زیست کے ہاتھ
بحر ظلمات میں ایک کوزۂ جاں ہے اب کے
غزل
کوہ غم اتنا گراں اتنا گراں ہے اب کے
رضی رضی الدین