آج کیا لوٹتے لمحات میسر آئے
یاد تم اپنی عنایات سے بڑھ کر آئے
راجیندر منچندا بانی
اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا
قائل ہی تری بات کا اندر سے نہیں تھا
راجیندر منچندا بانی
بانیؔ ذرا سنبھل کے محبت کا موڑ کاٹ
اک حادثہ بھی تاک میں ہوگا یہیں کہیں
راجیندر منچندا بانی
بگولے اس کے سر پر چیختے تھے
مگر وہ آدمی چپ ذات کا تھا
راجیندر منچندا بانی
بین کرتی ہوئی سمتوں سے نہ ڈرنا بانیؔ
ایسی آوازیں تو اس راہ میں عام آئیں گی
راجیندر منچندا بانی
چلو کہ جذبۂ اظہار چیخ میں تو ڈھلا
کسی طرح اسے آخر ادا بھی ہونا تھا
راجیندر منچندا بانی
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
راجیندر منچندا بانی
دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا
میں کہ عکس منتشر ایک ایک منظر میں اکیلا
راجیندر منچندا بانی
ہری سنہری خاک اڑانے والا میں
شفق شجر تصویر بنانے والا میں
راجیندر منچندا بانی