مجھے پتہ تھا کہ یہ حادثہ بھی ہونا تھا
میں اس سے مل کے نہ تھا خوش جدا بھی ہونا تھا
چلو کہ جذبۂ اظہار چیخ میں تو ڈھلا
کسی طرح اسے آخر ادا بھی ہونا تھا
بنا رہی تھی عجب چتر ڈوبتی ہوئی شام
لہو کہیں کہیں شامل مرا بھی ہونا تھا
عجب سفر تھا کہ ہم راستوں سے کٹتے گئے
پھر اس کے بعد ہمیں لاپتہ بھی ہونا تھا
میں تیرے پاس چلا آیا لے کے شکوے گلے
کہاں خبر تھی کوئی فیصلہ بھی ہونا تھا
غبار بن کے اڑے تیز رو کہ ان کے لیے
تو کیا ضرور کوئی راستہ بھی ہونا تھا
سرائے پر تھا دھواں جمع ساری بستی کا
کچھ اس طرح کہ کوئی سانحہ بھی ہونا تھا
مجھے ذرا سا گماں بھی نہ تھا اکیلا ہوں
کہ دشمنوں کا کہیں سامنا بھی ہونا تھا
غزل
مجھے پتہ تھا کہ یہ حادثہ بھی ہونا تھا
راجیندر منچندا بانی