EN हिंदी
بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا | شیح شیری
bahut kuchh muntazir ek baat ka tha

غزل

بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا

راجیندر منچندا بانی

;

بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا
کہ لمحہ لاکھ امکانات کا تھا

بچا لی تھی ضیا اندر کی اس نے
وہی اک آشنا اب رات کا تھا

رفاقت کیا کہاں کے مشترک خواب
کہ سارا سلسلہ شبہات کا تھا

بگولے اس کے سر پر چیختے تھے
مگر وہ آدمی چپ ذات کا تھا

حنائی ہاتھ کا منظر تھا بانیؔ
کہ تابندہ ورق اثبات کا تھا