شعلہ ادھر ادھر کبھی سایا یہیں کہیں
ہوگا وہ برق جسم سبک پا یہیں کہیں
کن پانیوں کا زور اسے کاٹ لے گیا
دیکھا تھا ہم نے ایک جزیرہ یہیں کہیں
منسوب جس سے ہو نہ سکا کوئی حادثہ
گم ہو کے رہ گیا ہے وہ لمحہ یہیں کہیں
آوارگی کا ڈر نہ کوئی ڈوبنے کا خوف
صحرا ہی آس پاس نہ دریا یہیں کہیں
وہ چاہتا یہ ہوگا کہ میں ہی اسے بلاؤں
میری طرح وہ پھرتا ہے تنہا یہیں کہیں
بانیؔ ذرا سنبھل کے محبت کا موڑ کاٹ
اک حادثہ بھی تاک میں ہوگا یہیں کہیں
غزل
شعلہ ادھر ادھر کبھی سایا یہیں کہیں
راجیندر منچندا بانی