آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
راحتؔ اندوری
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
راحتؔ اندوری
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں
راحتؔ اندوری
بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے
میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے
راحتؔ اندوری
بوتلیں کھول کر تو پی برسوں
آج دل کھول کر بھی پی جائے
راحتؔ اندوری
کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے
چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے
راحتؔ اندوری
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
راحتؔ اندوری
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
راحتؔ اندوری
گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا
گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے
راحتؔ اندوری