EN हिंदी
راحتؔ اندوری شیاری | شیح شیری

راحتؔ اندوری شیر

28 شیر

خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر
جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے

راحتؔ اندوری




ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے

راحتؔ اندوری




گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا
گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے

راحتؔ اندوری




ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو

راحتؔ اندوری




دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

راحتؔ اندوری




کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے
چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے

راحتؔ اندوری




بوتلیں کھول کر تو پی برسوں
آج دل کھول کر بھی پی جائے

راحتؔ اندوری




بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے
میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے

راحتؔ اندوری




بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

راحتؔ اندوری