آئینے کو توڑا ہے تو معلوم ہوا ہے
گزرا ہوں کسی دشت خطرناک سے آگے
رفیع رضا
دھوپ چھاؤں کا کوئی کھیل ہے بینائی بھی
آنکھ کو ڈھونڈ کے لایا ہوں تو منظر گم ہے
رفیع رضا
ایک دن اپنا صحیفہ مجھ پہ نازل ہو گیا
اس کو پڑھتے ہی مری ساری خطائیں مر گئیں
رفیع رضا
ایک مجذوب اداسی میرے اندر گم ہے
اس سمندر میں کوئی اور سمندر گم ہے
رفیع رضا
ایک اجڑی ہوئی حسرت ہے کہ پاگل ہو کر
بین ہر شہر میں کرتی ہوئی دیکھی گئی ہے
رفیع رضا
کس نے روکا ہے سر راہ محبت تم کو
تمہیں نفرت ہے تو نفرت سے تم آؤ جاؤ
رفیع رضا
میں سامنے سے اٹھا اور لو لرزنے لگی
چراغ جیسے کوئی بات کرنے والا تھا
رفیع رضا
پڑا ہوا ہوں میں سجدے میں کہہ نہیں پاتا
وہ بات جس سے کہ ہلکا ہو کچھ زبان کا بوجھ
رفیع رضا
تو خود اپنی مثال ہے وہ تو ہے
اسی اپنی مثال میں مجھے مل
رفیع رضا