وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے
اب ڈھونڈ مجھے مجمع عشاق سے آگے
اک سرخ سمندر میں ترا ذکر بہت ہے
اے شخص گزر دیدۂ نمناک سے آگے
اس پار سے آتا کوئی دیکھوں تو یہ پوچھوں
افلاک سے پیچھے ہوں کہ افلاک سے آگے
دم توڑ نہ دے اب کہیں خواہش کی ہوا بھی
یہ خاک تو اڑتی نہیں خاشاک سے آگے
جو نقش ابھارے تھے مٹائے بھی ہیں اس نے
درپیش پھر اک چاک ہے اس چاک سے آگے
آئینے کو توڑا ہے تو معلوم ہوا ہے
گزرا ہوں کسی دشت خطرناک سے آگے
ہم زاد کی صورت ہے مرے یار کی صورت
میں کیسے نکل سکتا ہوں چالاک سے آگے
غزل
وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے
رفیع رضا