EN हिंदी
پیڑ سوکھا حرف کا اور فاختائیں مر گئیں | شیح شیری
peD sukha harf ka aur faKHtaen mar gain

غزل

پیڑ سوکھا حرف کا اور فاختائیں مر گئیں

رفیع رضا

;

پیڑ سوکھا حرف کا اور فاختائیں مر گئیں
لب نہ کھولے تو گھٹن سے سب دعائیں مر گئیں

ایک دن اپنا صحیفہ مجھ پہ نازل ہو گیا
اس کو پڑھتے ہی مری ساری خطائیں مر گئیں

یاد کی گدڑی کو میں نے ایک دن پہنا نہیں
ایک دن کے ہجر میں ساری بلائیں مر گئیں

میں نے مستقبل میں جا کر ایک لمبی سانس لی
پھر مرے ماضی کی سب حاسد ہوائیں مر گئیں

میں نے کیا سوچا تھا ان کے واسطے اور کیا ہوا
میرے چپ ہونے سے اندر کی صدائیں مر گئیں

اس طرف مٹی تھی میرے اس طرف اک نور تھا
میں جیا میرے لیے دو انتہائیں مر گئیں