پیڑ سوکھا حرف کا اور فاختائیں مر گئیں
لب نہ کھولے تو گھٹن سے سب دعائیں مر گئیں
ایک دن اپنا صحیفہ مجھ پہ نازل ہو گیا
اس کو پڑھتے ہی مری ساری خطائیں مر گئیں
یاد کی گدڑی کو میں نے ایک دن پہنا نہیں
ایک دن کے ہجر میں ساری بلائیں مر گئیں
میں نے مستقبل میں جا کر ایک لمبی سانس لی
پھر مرے ماضی کی سب حاسد ہوائیں مر گئیں
میں نے کیا سوچا تھا ان کے واسطے اور کیا ہوا
میرے چپ ہونے سے اندر کی صدائیں مر گئیں
اس طرف مٹی تھی میرے اس طرف اک نور تھا
میں جیا میرے لیے دو انتہائیں مر گئیں
غزل
پیڑ سوکھا حرف کا اور فاختائیں مر گئیں
رفیع رضا