EN हिंदी
مرزا اطہر ضیا شیاری | شیح شیری

مرزا اطہر ضیا شیر

15 شیر

دیکھتے رہتے ہیں خود اپنا تماشا دن رات
ہم ہیں خود اپنے ہی کردار کے مارے ہوئے لوگ

مرزا اطہر ضیا




ایک دریا کو دکھائی تھی کبھی پیاس اپنی
پھر نہیں مانگا کبھی میں نے دوبارا پانی

مرزا اطہر ضیا




حریم دل میں ٹھہر یا سرائے جان میں رک
یہ سب مکان ہیں تیرے کسی مکان میں رک

مرزا اطہر ضیا




جشن ہوتا ہے وہاں رات ڈھلے
وہ جو اک خالی مکاں ہے مجھ میں

مرزا اطہر ضیا




خود اپنے قتل کا الزام ڈھو رہا ہوں ابھی
میں اپنی لاش پہ سر رکھ کے رو رہا ہوں ابھی

مرزا اطہر ضیا




کیا پتا جانے کہاں آگ لگی
ہر طرف صرف دھواں ہے مجھ میں

مرزا اطہر ضیا




میں ادھورا سا ہوں اس کے اندر
اور وہ شخص مکمل مجھ میں

مرزا اطہر ضیا




میں ہی آئینۂ دنیا میں چلا آیا ہوں
یا چلی آئی ہے دنیا مرے آئینے میں

مرزا اطہر ضیا




میں نے کیسے کیسے موتی ڈھونڈے ہیں
لیکن تیرے آگے سب کچھ پتھر ہے

مرزا اطہر ضیا