EN हिंदी
کوئی دریا بھی رواں ہے مجھ میں | شیح شیری
koi dariya bhi rawan hai mujh mein

غزل

کوئی دریا بھی رواں ہے مجھ میں

مرزا اطہر ضیا

;

کوئی دریا بھی رواں ہے مجھ میں
صرف صحرا ہی کہاں ہے مجھ میں

کیا پتا جانے کہاں آگ لگی
ہر طرف صرف دھواں ہے مجھ میں

جشن ہوتا ہے وہاں رات ڈھلے
وہ جو اک خالی مکاں ہے مجھ میں

اجنبی ہو گئیں گلیاں میری
جانے اب کون کہاں ہے مجھ میں

ایک دن تھا جو کہیں ڈوب گیا
ایک شب ہے کہ جواں ہے مجھ میں

تم جسے ڈھونڈ رہے ہو اطہرؔ
اب وہ انسان کہاں ہے مجھ میں