خود اپنے قتل کا الزام ڈھو رہا ہوں ابھی
میں اپنی لاش پہ سر رکھ کے رو رہا ہوں ابھی
اسی پہ فصل کھڑی ہوگی اک صداؤں کی
میں جس زمین پہ خاموشی بو رہا ہوں ابھی
سب اپنی اپنی فصیلیں ہٹا لیں رستے سے
میں اپنی راہ کی دیوار ہو رہا ہوں ابھی
کہو کہ دشت ابھی تھوڑا انتظار کرے
میں اپنے پاؤں ندی میں بھگو رہا ہوں ابھی
میں تجھ کو پھینک بھی سکتا تھا زندگی لیکن
کسی امید پہ یہ بوجھ ڈھو رہا ہوں ابھی
بہت سی آنکھیں مری راہ دیکھتی ہوں گی
میں ایک خواب ہوں تعبیر ہو رہا ہوں ابھی

غزل
خود اپنے قتل کا الزام ڈھو رہا ہوں ابھی
مرزا اطہر ضیا