ہر گھڑی برسے ہے بادل مجھ میں
کون ہے پیاس سے پاگل مجھ میں
تم نے رو دھو کے تسلی کر لی
پھیلتا ہے ابھی کاجل مجھ میں
میں ادھورا سا ہوں اس کے اندر
اور وہ شخص مکمل مجھ میں
چپ کی دیواروں سے سر پھوڑے ہے
جو اک آواز ہے پاگل مجھ میں
میں تجھے سہل بہت لگتا ہوں
تو کبھی چار قدم چل مجھ میں
مژدہ آنکھوں کو کہ پھر سے پھوٹی
اک نئے خواب کی کونپل مجھ میں
کاٹنے ہیں کئی بن باس یہیں
اگ رہا ہے جو یہ جنگل مجھ میں
آگ میں جلتا ہوں جب جب اطہرؔ
اور آ جاتا ہے کچھ بل مجھ میں

غزل
ہر گھڑی برسے ہے بادل مجھ میں
مرزا اطہر ضیا