روک رکھا تھا جو ان آنکھوں میں کھارا پانی
میری دیواروں میں در آیا وہ سارا پانی
ایک دریا کو دکھائی تھی کبھی پیاس اپنی
پھر نہیں مانگا کبھی میں نے دوبارا پانی
اپنی آنکھوں سے نچوڑوں گا کسی روز اسے
کرتا رہتا ہے بہت مجھ سے کنارا پانی
اب کے بارش پہ کوئی حق نہیں انسانوں کا
اب کے چڑیوں کے لیے رب نے اتارا پانی
میں سمندر سے لگی شور زمیں جیسا ہوں
مارتا رہتا ہے مجھ کو مرا کھارا پانی
میں نے ان آنکھوں سے کچھ موتی چنے تھے اطہرؔ
میرے ہونٹوں میں ابھی جذب ہے کھارا پانی

غزل
روک رکھا تھا جو ان آنکھوں میں کھارا پانی
مرزا اطہر ضیا