EN हिंदी
میر احمد نوید شیاری | شیح شیری

میر احمد نوید شیر

13 شیر

اے خلش بول کیا یہی ہے خدا
یہ جو دل میں خلا سا رہتا ہے

میر احمد نوید




اے وقت تو کہیں بھی کسی کا ہوا ہے کیا
کیا تجھ کو دیکھنا تری ساعت کو دیکھنا

میر احمد نوید




چراغ ہائے تکلف بجھا دیے گئے ہیں
اٹھاؤ جام کہ پردے اٹھا دیے گئے ہیں

میر احمد نوید




دبا سکا نہ صدا اس کی تیری بزم کا شور
خموش رہ کے بھی کوئی صدا بنا ہوا ہے

میر احمد نوید




جو مل گئے تو تونگر نہ مل سکے تو گدا
ہم اپنی ذات کے اندر چھپا دیے گئے ہیں

میر احمد نوید




خود سے گزرے تو قیامت سے گزر جائیں گے ہم
یعنی ہر حال کی حالت سے گزر جائیں گے ہم

میر احمد نوید




کچھ اس طرح سے کہا مجھ سے بیٹھنے کے لیے
کہ جیسے بزم سے اس نے اٹھا دیا ہے مجھے

میر احمد نوید




میں اپنے ہجر میں تھا مبتلا ازل سے مگر
ترے وصال نے مجھ سے ملا دیا ہے مجھے

میر احمد نوید




میں کہیں آؤں میں کہیں جاؤں
وقت جیسے رکا سا رہتا ہے

میر احمد نوید