یہ سوچ بننا ہے کیا تجھ کو کیا بنا ہوا ہے
خدا کا کیا ہے کہ وہ تو خدا بنا ہوا ہے
دبا سکا نہ صدا اس کی تیری بزم کا شور
خموش رہ کے بھی کوئی صدا بنا ہوا ہے
میں چاہتا ہوں مسیحا کے دل میں بھی رکھ دوں
وہ درد میرے لیے جو دوا بنا ہوا ہے
یہ کار عشق ہے رکھ اپنے انہماک سے کام
نہ دیکھ بگڑا ہوا کیا ہے کیا بنا ہوا ہے
بسی ہوئی ہے مرے عشق سے تری خلوت
ترا جمال مرا آئنا بنا ہوا ہے
تمہاری بزم میں حیرت سے ہے کوئی تصویر
کوئی ادب سے ہے ساکت دیا بنا ہوا ہے
جو چاہئے ہے ہمیں وہ ہمیں میسر ہے
قدم اٹھے ہوئے ہیں راستا بنا ہوا ہے
غزل
یہ سوچ بننا ہے کیا تجھ کو کیا بنا ہوا ہے
میر احمد نوید