آنسو آنسو جس نے دریا پار کئے
قطرہ قطرہ آب میں الجھا بیٹھا ہے
مشکور حسین یاد
اعلیٰ میں تو ادنیٰ کے حوالے ہی حوالے
ادنیٰ ہی میں اعلیٰ کا حوالہ نہیں ملتا
مشکور حسین یاد
بہتر ہے کہ اب خود سے جدا ہو کے بھی دیکھیں
دریا میں تو دریا کا حوالہ نہیں ملتا
مشکور حسین یاد
ہمارے آسماں کا ہر ستارہ سب پہ روشن ہے
کسی زخم محبت کو نہاں ہم نے نہیں رکھا
مشکور حسین یاد
ان اشکوں کا دل سے کیا تعلق
یہ شعلے جگر سے آ رہے ہیں
مشکور حسین یاد
خوش نہ ہو آنسوؤں کی بارش پر
برق ہے چشم تر کے پہلو میں
مشکور حسین یاد
نقاب اٹھاؤ تو ہر شے کو پاؤ گے سالم
یہ کائنات بطور حجاب ٹوٹتی ہے
مشکور حسین یاد
عمر گزری سفر کے پہلو میں
خوب سے خوب تر کے پہلو میں
مشکور حسین یاد