یونہی فریب نظر کی طناب ٹوٹتی ہے
قدم بڑھائیے موج سراب ٹوٹتی ہے
جہاں چٹکتا ہے غنچہ زمین عالم پر
وہیں پہ تشنگئ آفتاب ٹوٹتی ہے
نقاب اٹھاؤ تو ہر شے کو پاؤ گے سالم
یہ کائنات بطور حجاب ٹوٹتی ہے
درون آب سنورتے ہیں صد حریم گہر
کنار بحر جو محراب آب ٹوٹتی ہے
مکاشفات کے ٹکڑے ہیں ذہن کے اوراق
کتاب اترتی نہیں ہے کتاب ٹوٹتی ہے
بس ایک آن میں کھلتا ہے قفل دریا کا
بس ایک آن میں قید حباب ٹوٹتی ہے
ہیں اس شکست میں خلق جدید کے اسرار
حقیقت آج بھی ہمراہ خواب ٹوٹتی ہے
کمال شے ہے کمر بھی حسینۂ غم کی
جلو میں لے کے کئی انقلاب ٹوٹتی ہے
غزل
یونہی فریب نظر کی طناب ٹوٹتی ہے
مشکور حسین یاد