باتوں کے نگر سے آ رہے ہیں
ہم اپنے ہی گھر سے آ رہے ہیں
لفظوں کے طلوع کر کے آفاق
معنی کے سفر سے آ رہے ہیں
خاموشیاں بھر کے تن بدن میں
ہم برق و شرر سے آ رہے ہیں
تاروں کے یہ جتنے قافلے ہیں
امکان سحر سے آ رہے ہیں
ان اشکوں کا دل سے کیا تعلق
یہ شعلے جگر سے آ رہے ہیں
بھیگے ہوئے غم میں سر سے پا تک
دریائے ہنر سے آ رہے ہیں
جتنے بھی ہیں لطف جاں کے موسم
سب دیدۂ تر سے آ رہے ہیں
یہ غم کے طیور بے تحاشا
اک دل کے شجر سے آ رہے ہیں
مشکورؔ ہیں کس خیال میں مست
بے خوف و خطر سے آ رہے ہیں
غزل
باتوں کے نگر سے آ رہے ہیں
مشکور حسین یاد