EN हिंदी
زمانہ بے کراں تھا بے کراں ہم نے نہیں رکھا | شیح شیری
zamana be-karan tha be-karan humne nahin rakkha

غزل

زمانہ بے کراں تھا بے کراں ہم نے نہیں رکھا

مشکور حسین یاد

;

زمانہ بے کراں تھا بے کراں ہم نے نہیں رکھا
ترے غم سے ورا کوئی جہاں ہم نے نہیں رکھا

ہمیشہ سامنے آئے مثال صبح رخشندہ
کبھی مدھم اجالوں کا سماں ہم نے نہیں رکھا

عطا کی اس ضو سے بزم ہر امکاں کو تابانی
کبھی دل کو چراغ نیم جاں ہم نے نہیں رکھا

رہے نشے میں لیکن انتہائے خاکساری سے
کہ سر پر بے خودی کا آسماں ہم نے نہیں رکھا

ہمارے آسماں کا ہر ستارہ سب پہ روشن ہے
کسی زخم محبت کو نہاں ہم نے نہیں رکھا

کیا ہے ضبط بھی تو درد کے طوفاں اٹھائے ہیں
خموشی کو سکوت خونچکاں ہم نے نہیں رکھا

ہمارا ہر سخن سیدھا اترتا ہے دل و جاں میں
کوئی بھی خنجر غم ناتواں ہم نے نہیں رکھا