عمر گزری سفر کے پہلو میں
خوب سے خوب تر کے پہلو میں
سانس لیتا ہے ذوق لا محدود
خواہش بام و در کے پہلو میں
شر کو کیا سمجھے یہ غبی مخلوق
شر کہاں ہے بشر کے پہلو میں
خوش نہ ہو آنسوؤں کی بارش پر
برق ہے چشم تر کے پہلو میں
اب ہمیں کیا کوئی سنبھالے گا
ہم ہیں سیلاب زر کے پہلو میں
فرش پر اس نے لی جو انگڑائی
عرش آیا اتر کے پہلو میں
عافیت سے بھی یادؔ خود کو بچاؤ
عافیت ہے خطر کے پہلو میں
غزل
عمر گزری سفر کے پہلو میں
مشکور حسین یاد