EN हिंदी
کرشن کمار طورؔ شیاری | شیح شیری

کرشن کمار طورؔ شیر

18 شیر

بہت کہا تھا کہ تم اکیلے نہ رہ سکو گے
بہت کہا تھا کہ ہم کو یوں در بدر نہ کرنا

کرشن کمار طورؔ




بند پڑے ہیں شہر کے سارے دروازے
یہ کیسا آسیب اب گھر گھر لگتا ہے

کرشن کمار طورؔ




دونوں بہر شعلۂ ذات دونوں اسیر انا
دریا کے لب پر پانی دشت کے لب پر پیاس

کرشن کمار طورؔ




ایک دیا دہلیز پہ رکھا بھول گیا
گھر کو لوٹ کے آنے والا بھول گیا

کرشن کمار طورؔ




اک آگ سی اب لگی ہوئی ہے
پانی میں اثر کہاں سے آیا

کرشن کمار طورؔ




کب تک تو آسماں میں چھپ کے بیٹھے گا
مانگ رہا ہوں میں کب سے دعا باہر آ

کرشن کمار طورؔ




خود ہی چراغ اب اپنی لو سے نالاں ہے
نقش یہ کیا ابھرا یہ کیسا زوال ہوا

کرشن کمار طورؔ




کیوں مجھے محسوس یہ ہوتا ہے اکثر رات بھر
سینۂ شب پر چمکتا ہے سمندر رات بھر

کرشن کمار طورؔ




میں جب پیڑ سے گر کے زمیں کی خاک ہوا
تب اک عالم موہوم سمجھ میں آیا

کرشن کمار طورؔ