ایک دیا دہلیز پہ رکھا بھول گیا
گھر کو لوٹ کے آنے والا بھول گیا
یہ کیسی بے آب زمیں کا سامنا تھا
خود کو قطرہ قطرے کو دریا بھول گیا
میں تو تھا موجود کتاب کے لفظوں میں
وہ ہی شاید مجھ کو پڑھنا بھول گیا
کس کے جسم کی بارش نے سیراب کیا
کیوں اڑنا موسم کا پرندہ بھول گیا
آخر یہ ہونا تھا آخر یہی ہوا
دنیا مجھ کو اور میں دنیا بھول گیا
میں بھی ہوں منسوب کسی کے قتل سے اب
سورج میری چھت پہ چمکنا بھول گیا
وفا کا کھوٹا سکہ کب تک چلتا طورؔ
اچھا ہوا جو اپنا پرایا بھول گیا

غزل
ایک دیا دہلیز پہ رکھا بھول گیا
کرشن کمار طورؔ