موجود جو تھا معدوم سمجھ میں آیا
اک الٹا ہی مفہوم سمجھ میں آیا
میں جب پیڑ سے گر کے زمیں کی خاک ہوا
تب اک عالم موہوم سمجھ میں آیا
میں ہی میں ہوں آنکھ اٹھتی ہے جدھر بھی اب
نا معلوم بھی معلوم سمجھ میں آیا
الٹے منتر ہی شاید میں پڑھتا ہوں
جو ظاہر تھا معدوم سمجھ میں آیا
زیست کو میں اک آب رواں کہتا ہوں طورؔ
کیا تم کو یہ مفہوم سمجھ میں آیا

غزل
موجود جو تھا معدوم سمجھ میں آیا
کرشن کمار طورؔ