اک کا گھونٹ سمندر اک کا پیکر پیاس
پانی آب حیات اور سکندر پیاس
امرت بوند آسمان سے ٹپکا پانی
گرم توے پر ایک پرندۂ بے پر پیاس
بیچ کی ایک لکیر ہی اب فیصلہ کرے
کس کے بازو پانی کس کی چادر پیاس
دونوں بہر شعلۂ ذات دونوں اسیر انا
دریا کے لب پر پانی دشت کے لب پر پیاس
رنگ لہو سے گلگوں آب نہر فرات
عہد وفا کا آئینہ ایک سمندر پیاس
شاید اک خنجر ہی دل شاداب کرے
وہ اک تنہا پیاسا میری گھر بھر پیاس
طورؔ وہی حصار ہے غم ارزانی کا
باہر کی سمت نقش ہے جو اک پتھر پیاس

غزل
اک کا گھونٹ سمندر اک کا پیکر پیاس
کرشن کمار طورؔ