کیوں مجھے محسوس یہ ہوتا ہے اکثر رات بھر
سینۂ شب پر چمکتا ہے سمندر رات بھر
ایک برق زرد لہرائے تو قصہ ختم ہو
کیوں ڈرائے رکھتا ہے مجھ کو مرا گھر رات بھر
اب رہے گا زیست میں لمحہ بہ لمحہ اک عذاب
اب کھلے گا اک فسوں منظر بہ منظر رات بھر
میں ہوں کیا اور کیا مری پہچان اب اس کے بغیر
میں جسے سینے میں رکھتا ہوں سجا کر رات بھر
امتحاں ہونے نہ ہونے کا نہ ہو درپیش طورؔ
اک صدا سی گونجتی ہے میرے اندر رات بھر

غزل
کیوں مجھے محسوس یہ ہوتا ہے اکثر رات بھر
کرشن کمار طورؔ