EN हिंदी
دیتا ہے کوئی مجھے صدا باہر آ | شیح شیری
deta hai koi mujhe sada bahar aa

غزل

دیتا ہے کوئی مجھے صدا باہر آ

کرشن کمار طورؔ

;

دیتا ہے کوئی مجھے صدا باہر آ
اے مرے بدن میں قید ہوا باہر آ

کب سے ہلا رہا ہوں زنجیر در شب
تو ہی لے کر ہاتھوں میں دیا باہر آ

کیوں بنا ہوا ہے ہدف زمانے کا
گزرا ہے کیا تجھ پہ سانحہ باہر آ

طاق میں کب سے سجا رہا ہوں یاد چراغ
تو ہی تو ہے اک میرا آشنا باہر آ

کب تک تو آسماں میں چھپ کے بیٹھے گا
مانگ رہا ہوں میں کب سے دعا باہر آ

تجھے یقین اگر ہے اپنے ہونے کا
آ اے میری جان بے نوا باہر آ

سنگ ملامت سے بچ جائے تو جانیں
طورؔ اس شہر منافق میں ذرا باہر آ