آج ڈوبا ہوا خوشبو میں ہے پیراہن جاں
اے صبا کس نے یہ پوچھا ہے ترا نام و نشاں
خلیلؔ الرحمن اعظمی
عارض پہ تیرے میری محبت کی سرخیاں
میری جبیں پہ تیری وفا کا غرور ہے
خلیلؔ الرحمن اعظمی
اب ان بیتے دنوں کو سوچ کر تو ایسا لگتا ہے
کہ خود اپنی محبت جیسے اک جھوٹی کہانی ہو
خلیلؔ الرحمن اعظمی
اور تو کوئی بتاتا نہیں اس شہر کا حال
اشتہارات ہی دیوار کے پڑھ کر دیکھیں
خلیلؔ الرحمن اعظمی
ازل سے تھا وہ ہمارے وجود کا حصہ
وہ ایک شخص کہ جو ہم پہ مہربان ہوا
خلیلؔ الرحمن اعظمی
بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا نکلا
خلیلؔ الرحمن اعظمی
بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا
وگرنہ ہم بھی کسی دن تمہیں بھلا دیتے
خلیلؔ الرحمن اعظمی
دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں
یہ نگری اندھوں کی نگری کس کو کیا سمجھاؤں
خلیلؔ الرحمن اعظمی
دنیا بھر کی رام کہانی کس کس ڈھنگ سے کہہ ڈالی
اپنی کہنے جب بیٹھے تو ایک ایک لفظ پگھلتا تھا
خلیلؔ الرحمن اعظمی