دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں
یہ نگری اندھوں کی نگری کس کو کیا سمجھاؤں
نام نہیں ہے کوئی کسی کا روپ نہیں ہے کوئی
میں کس کا سایہ ہوں کس کے سائے سے ٹکراؤں
سستے داموں بیچ رہے ہیں اپنے آپ کو لوگ
میں کیا اپنا مول بتاؤں کیا کہہ کر چلاؤں
اپنے سپید و سیہ کا مالک ایک طرح سے میں بھی ہوں
دن میں سمیٹوں اپنے آپ کو رات میں پھر بکھراؤں
اپنے ہوں یا غیر ہوں سب کے اندر سے ہے ایک سا حال
کس کس کے میں بھید چھپاؤں کس کی ہنسی اڑاؤں
پیاسی بستی پیاسا جنگل پیاسی چڑیا پیاسا پیار
میں بھٹکا آوارہ بادل کس کی پیاس بجھاؤں
غزل
دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں
خلیلؔ الرحمن اعظمی