EN हिंदी
وہ دن کب کے بیت گئے جب دل سپنوں سے بہلتا تھا | شیح شیری
wo din kab ke bit gae jab dil sapnon se bahalta tha

غزل

وہ دن کب کے بیت گئے جب دل سپنوں سے بہلتا تھا

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

وہ دن کب کے بیت گئے جب دل سپنوں سے بہلتا تھا
گھر میں کوئی آئے کہ نہ آئے ایک دیا سا جلتا تھا

یاد آتی ہیں وہ شامیں جب رسم و راہ کسی سے تھی
ہم بے چین سے ہونے لگتے جوں جوں یہ دن ڈھلتا تھا

ان گلیوں میں اب سنتے ہیں راتیں بھی سو جاتی ہیں
جن گلیوں میں ہم پھرتے تھے جہاں وہ چاند نکلتا تھا

وہ مانوس سلونے چہرے جانے اب کس حال میں ہیں
جن کو دیکھ کے خاک کا ذرہ ذرہ آنکھیں ملتا تھا

کوئی پرانا ساتھی بھی شاید ہی ہمیں پہچان سکے
ورنہ اک دن شہر وفا میں اپنا سکہ چلتا تھا

شاید اپنا پیار ہی جھوٹا تھا ورنہ دستور یہ تھا
مٹی میں جو بیچ بھی بویا جاتا تھا وہ پھلتا تھا

اب کے ایسے پت جھڑ آئی سوکھ گئی ڈالی ڈالی
ایسے ڈھنگ سے کوئی پودا کب پوشاک بدلتا تھا

آج شب غم راس آئے تو اپنی بات بھی رہ جائے
اندھیارے کی کوکھ میں یوں تو پہلے سورج پلتا تھا

دنیا بھر کی رام کہانی کس کس ڈھنگ سے کہہ ڈالی
اپنی کہنے جب بیٹھے تو اک اک لفظ پگھلتا تھا