عجیب سانحہ گزرا ہے ان گھروں پہ کوئی
کہ چونکتا ہی نہیں اب تو دستکوں پہ کوئی
جاوید انور
بے تکی روشنی میں پرائے اندھیرے لیے
ایک منظر ہے تیرے لیے ایک میرے لیے
جاوید انور
ہر ایک حد سے پرے اپنا بوریا لے جا
بدی کا نام نہ لے اور نیکیوں سے نکل
جاوید انور
جو دن چڑھا تو ہمیں نیند کی ضرورت تھی
سحر کی آس میں ہم لوگ رات بھر جاگے
جاوید انور
کوئی کہانی کوئی واقعہ سنا تو سہی
اگر ہنسا نہیں سکتا مجھے رلا تو سہی
جاوید انور
نکل گلاب کی مٹھی سے اور خوشبو بن
میں بھاگتا ہوں ترے پیچھے اور تو جگنو بن
جاوید انور
شام پیاری شام اس پر بھی کوئی در کھول دے
شاخ پر بیٹھی ہوئی ہے ایک بے گھر فاختہ
جاوید انور
تجھے میں غور سے دیکھوں میں تجھ سے پیار کروں
اے میرے بت تو مرے بت کدوں سے باہر آ
جاوید انور