مہیب رات کے گنجان پانیوں سے نکل
نئی سحر کے ستارے تو چمنیوں سے نکل
ہر ایک حد سے پرے اپنا بوریا لے جا
بدی کا نام نہ لے اور نیکیوں سے نکل
اے میرے مہر تو اس کی چھتوں پہ آخر ہو
اے میرے ماہ تو آج اس کی کھڑکیوں سے نکل
نکل کے دیکھ تری منتظر قطار قطار
عزیز دانۂ گندم تو بوریوں سے نکل
تو میری نظم کے اسرار میں ہویدا ہو
تو میرے کشف کی نادیدہ گھاٹیوں سے نکل
اے پچھلی عمر ادھر سوکھی پتیوں میں آ
اے اگلے سال بجھی موم بتیوں سے نکل
غزل
مہیب رات کے گنجان پانیوں سے نکل
جاوید انور