EN हिंदी
مہیب رات کے گنجان پانیوں سے نکل | شیح شیری
muhib raat ke gunjaan paniyon se nikal

غزل

مہیب رات کے گنجان پانیوں سے نکل

جاوید انور

;

مہیب رات کے گنجان پانیوں سے نکل
نئی سحر کے ستارے تو چمنیوں سے نکل

ہر ایک حد سے پرے اپنا بوریا لے جا
بدی کا نام نہ لے اور نیکیوں سے نکل

اے میرے مہر تو اس کی چھتوں پہ آخر ہو
اے میرے ماہ تو آج اس کی کھڑکیوں سے نکل

نکل کے دیکھ تری منتظر قطار قطار
عزیز دانۂ گندم تو بوریوں سے نکل

تو میری نظم کے اسرار میں ہویدا ہو
تو میرے کشف کی نادیدہ گھاٹیوں سے نکل

اے پچھلی عمر ادھر سوکھی پتیوں میں آ
اے اگلے سال بجھی موم بتیوں سے نکل