EN हिंदी
بے تکی روشنی میں پرائے اندھیرے لیے | شیح شیری
be-tuki raushni mein parae andhere liye

غزل

بے تکی روشنی میں پرائے اندھیرے لیے

جاوید انور

;

بے تکی روشنی میں پرائے اندھیرے لیے
ایک منظر ہے تیرے لیے ایک میرے لیے

اک گل خواب ایسا کھلا شاخ مرجھا گئی
میں نے مستی میں اک اسم کے سات پھیرے لیے

در دریچے مقفل کئے کنجیاں پھینک دیں
چل پڑے اپنے کندھوں پہ اپنے بسیرے لیے

تیری خاطر مرے گرم خطے کی ٹھنڈی ہوا
سب ہری ٹہنیاں اور ان پر کھلے پھول تیرے لیے

شام وعدہ نے کس دن ہمارا ارادہ سنا
کب کسے شب ملی اور کس نے سویرے لیے