بے تکی روشنی میں پرائے اندھیرے لیے
ایک منظر ہے تیرے لیے ایک میرے لیے
اک گل خواب ایسا کھلا شاخ مرجھا گئی
میں نے مستی میں اک اسم کے سات پھیرے لیے
در دریچے مقفل کئے کنجیاں پھینک دیں
چل پڑے اپنے کندھوں پہ اپنے بسیرے لیے
تیری خاطر مرے گرم خطے کی ٹھنڈی ہوا
سب ہری ٹہنیاں اور ان پر کھلے پھول تیرے لیے
شام وعدہ نے کس دن ہمارا ارادہ سنا
کب کسے شب ملی اور کس نے سویرے لیے
غزل
بے تکی روشنی میں پرائے اندھیرے لیے
جاوید انور