نکل گلاب کی مٹھی سے اور خوشبو بن
میں بھاگتا ہوں ترے پیچھے اور تو جگنو بن
تو میرے درد کی خاموش ہچکیوں میں آ
تو میرے زخم کی تنہائیوں کا آنسو بن
میں جھیل بنتا ہوں شفاف پانیوں سے بھری
تو دوڑ دوڑ تھکا بے قرار آہو بن
تو میری رات کی تاریکیوں کو گاڑھا کر
مرے مکان کا تنہا چراغ بھی تو بن
پھر اس کے بعد سبھی وسعتیں ہماری ہیں
میں آنکھ بنتا ہوں جاویدؔ اور تو بازو بن
غزل
نکل گلاب کی مٹھی سے اور خوشبو بن
جاوید انور