EN हिंदी
نکل گلاب کی مٹھی سے اور خوشبو بن | شیح شیری
nikal gulab ki muTThi se aur KHushbu ban

غزل

نکل گلاب کی مٹھی سے اور خوشبو بن

جاوید انور

;

نکل گلاب کی مٹھی سے اور خوشبو بن
میں بھاگتا ہوں ترے پیچھے اور تو جگنو بن

تو میرے درد کی خاموش ہچکیوں میں آ
تو میرے زخم کی تنہائیوں کا آنسو بن

میں جھیل بنتا ہوں شفاف پانیوں سے بھری
تو دوڑ دوڑ تھکا بے قرار آہو بن

تو میری رات کی تاریکیوں کو گاڑھا کر
مرے مکان کا تنہا چراغ بھی تو بن

پھر اس کے بعد سبھی وسعتیں ہماری ہیں
میں آنکھ بنتا ہوں جاویدؔ اور تو بازو بن