EN हिंदी
مکان سوئے ہوئے تھے ابھی کہ در جاگے | شیح شیری
makan soe hue the abhi ki dar jage

غزل

مکان سوئے ہوئے تھے ابھی کہ در جاگے

جاوید انور

;

مکان سوئے ہوئے تھے ابھی کہ در جاگے
تھکن مٹی بھی نہ تھی اور نئے سفر جاگے

جو دن چڑھا تو ہمیں نیند کی ضرورت تھی
سحر کی آس میں ہم لوگ رات بھر جاگے

جکڑ رکھا تھا فضا کو ہمارے نعروں نے
جو لب خموش ہوئے تو دلوں میں ڈر جاگے

ہمیں ڈرائے گی کیا رات خود ہے سہمی ہوئی
بدن تو جاگتے رہتے تھے اب کے سر جاگے

اٹھاؤ ہاتھ کہ وقت قبولیت ہے یہی
دعا کرو کہ دعاؤں میں اب اثر جاگے