EN हिंदी
اقبال کوثر شیاری | شیح شیری

اقبال کوثر شیر

10 شیر

اب بانجھ زمینوں سے امید بھی کیا رکھنا
روئیں بھی تو لا حاصل بوئیں بھی تو کیا کاٹیں

اقبال کوثر




بننا تھا تو بنتا نہ فرشتہ نہ خدا میں
انسان ہی بنتا مری تکمیل تو یہ تھی

اقبال کوثر




دھیان آیا مجھے رات کی تنہا سفری کا
یک دم کوئی سایہ سا گلی سے نکل آیا

اقبال کوثر




جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں
آج کل ہم ترے بارے میں بہت سوچتے ہیں

اقبال کوثر




مری خاک اس نے بکھیر دی سر رہ غبار بنا دیا
میں جب آ سکا نہ شمار میں مجھے بے شمار بنا دیا

اقبال کوثر




پر لے کے کدھر جائیں کچھ دور تک اڑ آئیں
دم جتنا میسر ہے یہ ٹھہری ہوا کاٹیں

اقبال کوثر




ترے جزو جزو خیال کو رگ جاں میں پورا اتار کر
وہ جو بار بار کی شکل تھی اسے ایک بار بنا دیا

اقبال کوثر




تری پہلی دید کے ساتھ ہی وہ فسوں بھی تھا
تجھے دیکھ کر تجھے دیکھنا مجھے آ گیا

اقبال کوثر




وہ بھی رو رو کے بجھا ڈالا ہے اب آنکھوں نے
روشنی دیتا تھا جو ایک دیا اندر سے

اقبال کوثر