میں در پہ ترے دربدری سے نکل آیا
چل کر بہ درستی غلطی سے نکل آیا
اب مسئلہ یہ ہے ترے محور میں کب اتروں
میں اپنی حدوں سے تو کبھی سے نکل آیا
کب مجھ کو نکلنا تھا یہ حیرت ہے فلک کو
میدان زمیں میں میں ابھی سے نکل آیا
اس تیرہ شبی میں کسی جگنو کی چمک ہے
یا جگنو خود اس تیرہ شبی سے نکل آیا
اے عرش معلی کے مکیں تجھ کو خبر ہے
میں تیری طرف بے خبری سے نکل آیا
دھیان آیا مجھے رات کی تنہا سفری کا
یک دم کوئی سایہ سا گلی سے نکل آیا
سو پیچ رہ راہبری تھا کہ میں جس سے
اپنے ہنر راہروی سے نکل آیا
وہ لمحۂ اول کہ تو جب آنکھ میں اترا
وہ وقت بھی کیا تھا کہ گھڑی سے نکل آیا
غزل
میں در پہ ترے دربدری سے نکل آیا
اقبال کوثر