جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں
آج کل ہم ترے بارے میں بہت سوچتے ہیں
کون حالات کی سوچوں کے تموج میں نہیں
ہم بھی بہہ کر اسی دھارے میں بہت سوچتے ہیں
ہنر کوزہ گری نے انہیں بخشی ہے تراش
یا یہ سب نقش تھے گارے میں بہت سوچتے ہیں
دھیان دھرتی کا نکلتا ہی نہیں ہے دل سے
جب سے اترے ہیں ستارے میں بہت سوچتے ہیں
اب محبت میں بھی اقبالؔ ہماری اوقات
کیوں نہیں اپنے گزارے میں بہت سوچتے ہیں

غزل
جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں
اقبال کوثر