کبھی آئنے سا بھی سوچنا مجھے آ گیا
مرا دل کے بیچ ہی ٹوٹنا مجھے آ گیا
تری پہلی دید کے ساتھ ہی وہ فسوں بھی تھا
تجھے دیکھ کر تجھے دیکھنا مجھے آ گیا
کوئی گہرے نیل سا سحر ہے تری آنکھ میں
یہ وہ جھیل ہے جہاں ڈوبنا مجھے آ گیا
مجھے کیا جو ہو کوئی لے میں شعر میں رنگ میں
مرا دکھ یہ ہے اسے ڈھونڈنا مجھے آ گیا
کہ ادائے یار پہ منحصر مری چال تھی
کہیں جیتنا کہیں ہارنا مجھے آ گیا
جہاں فرط مستی میں کج قدم تھے سمن باراں
کوئی گر رہا تھا تو تھامنا مجھے آ گیا
بڑے کام کی تھی جو گفتگو رہی رو بہ رو
تو نہ جان، پر تجھے جاننا مجھے آ گیا
غزل
کبھی آئنے سا بھی سوچنا مجھے آ گیا
اقبال کوثر