اقبالؔ یونہی کب تک ہم قید انا کاٹیں
مل بیٹھ کے لوگوں میں آ اپنے خلا کاٹیں
جو کرنا ہے اب کر لیں ہم تم سے نہ کہتے تھے
اب سنگ ستم چاہیں ہونے کی سزا کاٹیں
اب بانجھ زمینوں سے امید بھی کیا رکھنا
روئیں بھی تو لا حاصل بوئیں بھی تو کیا کاٹیں
پر لے کے کدھر جائیں کچھ دور تک اڑ آئیں
دم جتنا میسر ہے یہ ٹھہری ہوا کاٹیں
اس مرحلۂ شب میں اب ایک ہی صورت ہے
یا دشت طلب پاٹیں یا گردش پا کاٹیں
غزل
اقبالؔ یونہی کب تک ہم قید انا کاٹیں
اقبال کوثر