کاہش غم نے جگر خون کیا اندر سے
ہم نے باہر بھی یہی زہر پیا اندر سے
زندہ لگتا ہوں تو یہ فن ہے مرے ساحر کا
ان نگاہوں نے مجھے کھینچ لیا اندر سے
وہ بھی رو رو کے بجھا ڈالا ہے اب آنکھوں نے
روشنی دیتا تھا جو ایک دیا اندر سے
مژۂ ملتفت یار ہے بد نام عبث
اس نے تو دل کا بس اک چاک سیا اندر سے
کوئی باہر بھی تو دیکھے مری گلگوں اشک
دل کی پر خونی نے کیا رنگ کیا اندر سے
غزل
کاہش غم نے جگر خون کیا اندر سے
اقبال کوثر